دیہاتی زندگی : اندر کی باتیں

دیہاتی طرزِ زندگی کی تعریف میں رطب اللسان حضرات شاید اس کے دوسرے پہلو نظر انداز کر دیتے ہیں ۔ یہ سچ ہے کہ آج سے کوئی پچیس تیس سال پہلے دیہی معاشرت سادہ ،

حقیقی اور بناوٹ سے کافی حد تک پاک تھی لیکن اس کے ساتھ ساتھ اُس زندگی کی مشکلات اور اُلجھنیں بھی عدیم المثال تھیں ۔ مسائل اور الجھنیں کچھ تو اُس معاشرت کا خاصہ تھیں اور کچھ اُن لوگوں کی اپنی پیدا کردہ تھیں ۔ اُن کی صفائی ستھرائی کے معیارات کو آج کل کی Highgeinic Conditions پر پرکھا جائے تو کافی گڑ بڑ نظر آتی ہے ۔ مثلاً گھروں کی

’’آرائش و زیبائش ‘‘ کے لیے گوبر کا استعمال عام تھا ( اور ابھی بھی ہے ) ۔موسم بہار کی آمد کے ساتھ ہی کچے گھروں کے صحنوں اور دیواروں پر چکنی مٹی اور گوبر سے لیپائی کی جاتی ہے۔گوبر میں اسی قبیل کی کچھ او ر ’ نفیس ‘ چیزیں ملا کر مرکب تیار کیا جاتا ہے اور پھر اس سے صحن اور دیواروں پر نقش و نگار اور بیل بوٹے بنائے جاتے ہیں ۔اس کام کے لیے دیہاتی خواتین میں شوق

لگن اور مقابلہ دیدنی ہوتا تھا اور اس کا اظہار صبح صبح مال مویشیوں کے باڑے کے باہر ان کے رش اور بعض اوقات چھینا جھپٹی سے ہو تا تھا۔ سجاوٹ کے علاوہ بھی گوبر کے کئی مفید استعمالات ہیں جن میں اسی سے اُپلے تھاپنا بھی شامل ہیں جو ایندھن کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔وقت کے ساتھ ساتھ اُپلوں کا استعمال اب قدرے کم ہوتا جارہا ہے۔ ایک زمانے میں خبر پڑھیں:کشمیری رہنما ہائوس اریسٹ نہیں ٗ ہائوس گیسٹ ہیں: بھارتی وزیر

تو گاؤں کا کوئی مکان ، چھت یا دیوار ایسی نہیں ہوتی تھی جو ان سے ’’ آراستہ ‘‘ نہ ہوتی ہو ۔ ۔ یہ ناچیز ایک دیہاتی ہے اور اس نے کئی دفعہ گاؤں میں اپنی ان آنکھوں سے دیکھا ہے (جو اتنی گنہگار بھی نہیں ہیں) کہ بعض خواتین چولہے میں اپلوں کی ’’ ایڈجسٹمنٹ‘‘ کرنے کے ساتھ ساتھ عین اسی لمحے روٹی بھی پکا رہی ہوتی ہیں ۔ ایسے میں ایک ہاتھ میں روٹی اور دوسرے میں اُپلہ تھاما ہوتا ہے ۔

( اور بعض اوقات تو ہر دو کاموں کے لیے ایک ہی ہاتھ استعمال کیا جاتا ہے )۔ ذاتی طور پر ہمیں گوبر کے ان استعمالات سے ہمیشہ نظریاتی اختلاف رہا ۔ اور کئی دفعہ ہم نے گاؤں والوں کو بڑے خلوص سے یہ سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ مال مویشی کے فُضلے خصوصاً گوبر کے استعمال کے بغیر بھی انسانی معاشرہ برقرار رہ سکتا ہے اور کچھ معاشروں نے تو اس کا باقاعدہ عملی نمونہ بھی پیش کیا ہے۔ لیکن الحمدللہ ہمیشہ منہ کی کھائی ہے ۔

آجکل دیہاتوں میں بھی ترقی کے آثار نظر آتے ہیں۔ شہری زندگی کی چھاپ کی بنا پر کئی دیہاتوں پر اب تو شہروں کا گُمان ہوتا ہے ۔ لیکن ستّر اسّی کی دہائی تک حالات یکسر مختلف تھے۔

کوالیفائیڈ ڈاکٹر تو خیر اب بھی دیہی علاقوں میں کم ملتے ہیں لیکن اس زمانے میں ڈاکٹر تو کُجا کوئی ڈھنگ کا Quack بھی موجود نہیں تھا ۔ ایسے میں کہیں کسی ’ نان کوالیفائیڈ ‘ اور بے مُرشدے Quack کا موجود ہونا بھی غنیمت تھا ۔

گاؤں کے ڈاکٹر کمال کے لوگ ہوتے تھے ۔ کوئی عمر رسیدہ مریض اگر دس پندرہ دن کے ’ علاج ‘ کے باوجود بھی ٹھیک نہ ہوتا تو اگرچہ وہ زکام بُخار وغیرہ کا ہی مریض ہوتا یہ اُسے اپنے علم اور تجربے کی بنیاد پر پورے خلوص کے ساتھ ’’ جواب ‘‘ دے دیتے ۔ اور ورثاء سے کہتے کہ بس اب ان کی ’ خدمت ‘ کریں اور دعا کریں ۔مریض بیچارہ اس پر بھی خوش ہوتا کہ چلو اس ’ بہانے ‘ کچھ خدمت تو ہو گی ۔میڈیکل سائنس میں ترقی ہوئی تو گاؤں میں اس ترقی کا حصہ صرف ’’ سٹیرائیڈز ‘‘ کی صورت میں پہنچا ۔ چنانچہ گاؤں کے ڈاکٹر سٹیرائیڈز کا بے دریغ استعمال کرواتے ہیں ۔ اکثر ان کا طریقہ علاج بڑا عجیب ہوتا ہے ۔ بات ’’ ڈیکا ڈران ‘‘ سے شروع ہوتی اور

You might also like